<<<<<<<<<<<<<<<<< دل کی گلیاں >>>>>>>>>>>>>>>

لاہور کی سڑکیں
لاہور، وہ شہر جو اپنی تنگ گلیوں، پرانے بازاروں اور چائے کے ڈھابوں میں دھڑکتا ہے۔ یہ شہر محبتوں، خوابوں اور چھوٹی چھوٹی کہانیوں کا گڑھ ہے۔ انہی گلیوں میں رہتی تھی عائشہ، ایک ایسی لڑکی جس کا دل شاعری سے بھرا تھا اور خواب ایک بڑی مصنفہ بننے کے۔ عائشہ کی عمر 24 برس تھی، اور وہ انارکلی بازار کے قریب ایک تنگ گلی میں اپنی ماں، بیگم نثار، اور چھوٹے بھائی، علی، کے ساتھ رہتی تھی۔ ان کا گھر سادہ تھا، لیکن اس کی دیواروں میں محبت اور ہمت کی کہانیاں سموئی تھیں۔
بیگم نثار ایک پرائمری اسکول کی ٹیچر تھیں، جنہوں نے اپنی پوری زندگی اپنے بچوں کی بہتر پرورش کے لیے وقف کر دی تھی۔ عائشہ کے والد کا انتقال اس وقت ہوا جب وہ دس برس کی تھی۔ اس کے بعد بیگم نثار نے اکیلے ہی گھر کا بوجھ اٹھایا، لیکن کبھی اپنی بیٹی کے خوابوں کو روکا نہیں۔ عائشہ اپنی ماں کی ہمت سے متاثر تھی، لیکن اس کے دل میں ایک بےچینی تھی۔ وہ کچھ بڑا کرنا چاہتی تھی، کچھ ایسا جو اس کے شہر، اس کے لوگوں کی کہانیوں کو دنیا تک پہنچائے۔
ہر صبح عائشہ اپنی چھوٹی سی بالکونی میں بیٹھ کر چائے کی پیالی ہاتھ میں تھامے لاہور کی گلیوں کو دیکھتی۔ وہ اپنی ڈائری میں شاعری لکھتی، جو اس کے دل کی آواز تھی۔ اس کی شاعری میں لاہور کی خوشبو، اس کی رنگینی اور اس کے لوگوں کی جدوجہد سموئی ہوتی تھی۔ ایک دن، جب وہ اپنی ڈائری میں لکھ رہی تھی، علی نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا، “باجی، تمہاری یہ شاعری کون پڑھے گا؟ آج کل تو لوگ صرف ٹک ٹاک دیکھتے ہیں!” عائشہ نے ہنس کر جواب دیا، “علی، شاعری دل سے دل تک جاتی ہے۔ ایک دن میری کہانیاں پوری دنیا سنے گی۔”
انارکلی کی ایک ملاقات
ایک دن عائشہ اپنی دوست سارہ کے ساتھ انارکلی بازار گھوم رہی تھی۔ سارہ ایک دبنگ اور پرجوش لڑکی تھی، جو ہمیشہ نئے آئیڈیاز کے ساتھ عائشہ کو حوصلہ دیتی تھی۔ وہ دونوں ایک پرانے کتابوں کے سٹال پر رکیں، جہاں عائشہ کی نظر ایک پرانی کتاب پر پڑی، جس کا نام تھا “لاہور کی باتیں”۔ کتاب کے سرورق پر پرانے لاہور کی ایک تصویر تھی، جس میں واہگہ بارڈر، بادشاہی مسجد اور شالیمار باغ کے مناظر تھے۔ عائشہ نے کتاب اٹھائی اور اس کے صفحات پلٹنے لگی۔ اس کے اندر لاہور کے لوگوں کی کہانیاں تھیں، جو عشق، جدوجہد اور خوابوں کے گرد گھومتی تھیں۔

سٹال پر موجود ایک نوجوان لڑکا، جو شاید اس کا مالک تھا، عائشہ کی دلچسپی دیکھ کر مسکرایا۔ اس نے کہا، “یہ کتاب بہت خاص ہے۔ اسے ایک مقامی مصنف نے لکھا تھا، جو لاہور کی گلیوں سے محبت کرتا تھا۔” عائشہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ لڑکا لمبا، دبلا پتلا، اور اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔ اس نے اپنا تعارف کرایا، “میں ہوں فیصل، اور یہ میرا چھوٹا سا کتابوں کا سٹال ہے۔”
فیصل اور عائشہ کی بات چیت شروع ہوئی۔ فیصل خود ایک شاعر تھا، لیکن اس نے اپنی شاعری کو کبھی عوام کے سامنے نہیں لایا۔ وہ کہتا تھا کہ اس کی شاعری اس کا ذاتی خزانہ ہے۔ عائشہ نے اس سے اپنی شاعری کے بارے میں بتایا، اور فیصل نے بڑے غور سے سنا۔ اس نے کہا، “تمہاری شاعری میں لاہور کی روح ہے۔ تمہیں اسے دنیا کے سامنے لانا چاہیے۔”
خوابوں کا آغاز
فیصل کی باتوں نے عائشہ کے دل میں ایک نئی امید جگائی۔ اس نے فیصل کے ساتھ مل کر ایک چھوٹا سا ادبی گروپ بنانے کا فیصلہ کیا، جس میں لاہور کے نوجوان شاعر اور ادیب اپنی تخلیقات پیش کریں۔ انہوں نے اس گروپ کا نام رکھا “دل کی گلیاں”۔ ہر ہفتے وہ انارکلی بازار کے ایک چھوٹے سے کیفے میں جمع ہوتے، جہاں وہ اپنی شاعری، کہانیاں اور خواب ایک دوسرے کے ساتھ بانٹتے۔ اس گروپ میں شامل تھا زین، ایک خاموش طبیعت کا لڑکا جو مختصر کہانیاں لکھتا تھا، اور ماہم، ایک پرجوش لڑکی جو اپنی نظموں میں پاکستانی معاشرے کی عورتوں کی جدوجہد کو بیان کرتی تھی۔
یہ گروپ جلد ہی لاہور کے ادبی حلقوں میں مشہور ہو گیا۔ عائشہ کی شاعری نے لوگوں کے دلوں کو چھوا، اور اس کی کہانیاں، جو پاکستانی معاشرے کی عکاسی کرتی تھیں، لوگوں کے درمیان مقبول ہوئیں۔ اس کی ایک کہانی، “گلی نمبر 7″، ایک ایسی لڑکی کی کہانی تھی جو اپنے خاندان کی توقعات اور اپنے خوابوں کے درمیان پھنسی ہوئی تھی۔ اس کہانی نے خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کے دلوں کو چھوا، کیونکہ یہ ان کے اپنے تجربات کی عکاسی کرتی تھی۔
لیکن عائشہ کا سفر آسان نہیں تھا۔ اسے معاشرے کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ایک لڑکی کو اتنی “آزادی” سے اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔ عائشہ کی ماں بھی فکر مند تھیں کہ اس کی بیٹی کہیں غلط راستے پر نہ چلی جائے۔ ایک رات، جب عائشہ اپنی ماں کے ساتھ چائے پی رہی تھی، بیگم نثار نے کہا، “عائشہ، میں جانتی ہوں کہ تمہارے خواب بڑے ہیں، لیکن یہ معاشرہ عورتوں کے لیے آسان نہیں۔ تمہیں محتاط رہنا ہوگا۔” عائشہ نے اپنی ماں کا ہاتھ تھاما اور کہا، “امی، میں اپنی کہانیوں سے لوگوں کے دلوں کو چھونا چاہتی ہوں۔ اگر میں خاموش رہی، تو میری آواز کون سنے گا؟”
ایک نیا موڑ
ایک دن، “دل کی گلیاں” کے ایک اجلاس میں، زین نے ایک ایسی تجویز پیش کی جس نے سب کو چونکا دیا۔ اس نے کہا کہ وہ لاہور سے باہر، پنجاب کے دیہی علاقوں میں جا کر وہاں کے لوگوں کی کہانیاں جمع کریں۔ “ہم صرف شہر کی کہانیاں کیوں سنیں؟ دیہات میں بھی لوگوں کے خواب ہیں، ان کی جدوجہد ہے۔ ہمیں ان کی آواز بھی دنیا تک پہنچانی چاہیے۔” عائشہ اور فیصل نے اس خیال کو سراہا، اور فیصلہ کیا کہ وہ مل کر ایک سفر کریں گے۔
ان کا پہلا پڑاؤ تھا فیصل آباد کے قریب ایک چھوٹا سا گاؤں، جہاں وہ ایک مقامی اسکول کی پرنسپل، مسز رخسانہ، سے ملے۔ رخسانہ ایک ایسی عورت تھیں جنہوں نے اپنی زندگی گاؤں کی لڑکیوں کی تعلیم کے لیے وقف کر دی تھی۔ انہوں نے عائشہ اور اس کے گروپ کو گاؤں کی کہانیاں سنائیں: ایک لڑکی جو ڈاکٹر بننا چاہتی تھی لیکن اس کے خاندان کے پاس وسائل نہیں تھے؛ ایک بزرگ جو اپنی زمین بچانے کے لیے جاگیرداروں سے لڑ رہے تھے؛ اور ایک نوجوان جو اپنے گاؤں کے لیے بجلی کا نظام بنانا چاہتا تھا۔
ان کہانیوں نے عائشہ کے دل کو چھو لیا۔ اس نے فیصل سے کہا، “ہمارا لاہور تو صرف ایک چھوٹی سی دنیا ہے۔ پاکستان کے اصل رنگ تو ان گاؤں کی گلیوں میں ہیں۔” فیصل نے مسکرا کر کہا، “عائشہ، تمہاری کہانیاں ان سب کی آواز بن سکتی ہیں۔”
محبت اور چیلنجز
وقت کے ساتھ عائشہ اور فیصل کے درمیان ایک گہرا رشتہ بن گیا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے خوابوں کو سمجھتے تھے اور ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ لیکن ان کی محبت کو پاکستانی معاشرے کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ فیصل کا تعلق ایک متوسط خاندان سے تھا، اور اس کے والدین چاہتے تھے کہ وہ ایک “مستحکم” پیشہ اپنائے، نہ کہ شاعری اور کتابوں کے پیچھے بھاگے۔ عائشہ کے خاندان کو بھی یہ رشتہ پسند نہیں تھا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ فیصل عائشہ کو “غلط راہ” پر لے جا رہا ہے۔
ایک دن، عائشہ کے چچا، جو خاندان کے بڑے تھے، گھر آئے اور بیگم نثار سے کہا، “نثار، تمہاری بیٹی کو سمجھاؤ۔ یہ شاعری اور ادبی گروپ اس کے مستقبل کو خراب کر دیں گے۔ اس کی شادی ایک اچھے گھر میں کرو۔” عائشہ نے یہ بات سن لی اور اپنے چچا سے کہا، “چچا جان، میں اپنے خوابوں کو نہیں چھوڑ سکتی۔ فیصل میری محبت ہے، لیکن اس سے بھی بڑھ کر میرا خواب ہے کہ میں اپنی کہانیوں سے لوگوں کے دلوں کو چھوؤں۔”
اس بات پر خاندان میں تناؤ بڑھ گیا۔ بیگم نثار عائشہ کے خوابوں کی حمایت کرتی تھیں، لیکن وہ اپنی بیٹی کے لیے معاشرتی دباؤ سے بھی پریشان تھیں۔ عائشہ نے اپنی ماں سے وعدہ کیا کہ وہ اپنے خوابوں اور خاندان کی عزت دونوں کو ساتھ لے کر چلے گی۔
کراچی کا سفر
“دل کی گلیاں” کی کامیابی نے عائشہ اور اس کے گروپ کو کراچی کے ایک بڑے ادبی فیسٹیول میں مدعو کیا۔ یہ ان کے لیے ایک بڑا موقع تھا۔ کراچی، جو پاکستان کا معاشی اور ثقافتی مرکز تھا، عائشہ کے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ وہاں کے لوگ، ان کی مصروفیات، اور شہر کی تیز رفتار زندگی نے عائشہ کو حیران کر دیا۔
کراچی میں ان کی ملاقات ایک مشہور پبلشر، راشد صاحب، سے ہوئی۔ راشد صاحب نے عائشہ کی کہانی “گلی نمبر 7” پڑھی اور اسے بہت سراہا۔ انہوں نے عائشہ سے کہا، “تمہاری کہانیوں میں سچائی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم ایک مکمل ناول لکھو، جو پاکستان کے شہری اور دیہی زندگی کے رنگوں کو سمیٹے۔” عائشہ کے لیے یہ ایک خواب جیسا لمحہ تھا۔

لیکن کراچی میں عائشہ کو ایک اور چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ فیسٹیول کے دوران، ایک مقامی صحافی نے عائشہ کی کہانیوں پر تنقید کی اور کہا کہ وہ پاکستانی معاشرے کی “غلط تصویر” پیش کر رہی ہیں۔ اس تنقید نے عائشہ کے دل کو توڑ دیا، لیکن فیصل نے اسے حوصلہ دیا۔ اس نے کہا، “عائشہ، سچ ہمیشہ تکلیف دیتا ہے۔ لیکن وہی سچ تمہاری کہانیوں کی طاقت ہے۔”
ناول کی تکمیل
کراچی سے واپسی پر عائشہ نے اپنے ناول پر کام شروع کیا۔ اس نے اسے “دل کی گلیاں” کا نام دیا۔ یہ ناول لاہور کی گلیوں سے لے کر پنجاب کے دیہات اور کراچی کی سڑکوں تک پھیلا ہوا تھا۔ اس میں عائشہ نے پاکستانی معاشرے کے ہر رنگ کو سمیٹا: محبت، جدوجہد، روایت، جدت، عورتوں کی آواز، اور نوجوانوں کے خواب۔
ناول لکھتے وقت عائشہ کو کئی راتیں جاگنا پڑا۔ وہ اپنی ماں کی کہانی، اپنے بھائی علی کے خواب، فیصل کی شاعری، اور گاؤں کی مسز رخسانہ کی جدوجہد کو اپنے ناول میں سموتی گئی۔ اس دوران فیصل اس کا سب سے بڑا سہارا رہا۔ وہ راتوں کو عائشہ کے ساتھ بیٹھ کر اس کے خیالات سنتا اور اسے نئے آئیڈیاز دیتا۔
ایک سال کی محنت کے بعد، ناول مکمل ہوا۔ راشد صاحب نے اسے شائع کیا، اور “دل کی گلیاں” پاکستان کی ادبی دنیا میں ایک دھوم مچا گئی۔ اس ناول نے نہ صرف شہری قارئین کو متاثر کیا، بلکہ دیہی علاقوں کے لوگوں نے بھی اسے اپنی کہانی سمجھا۔ عائشہ کی کہانیوں نے پاکستانی معاشرے کی خوبصورتی، اس کی خامیاں اور اس کے لوگوں کے جذبوں کی عکاسی کی۔
ایک نئی صبح
ناول کی کامیابی نے عائشہ کے خوابوں کو پرواز دی۔ اس نے نہ صرف اپنے خاندان کا سر فخر سے بلند کیا، بلکہ لاہور کی گلیوں میں رہنے والے ہر اس انسان کی آواز بنی جو اپنے خوابوں کے لیے لڑ رہا تھا۔ فیصل اور عائشہ نے اپنی محبت کو بھی ایک خوبصورت انجام دیا، اور انہوں نے شادی کر لی۔ ان کا گھر اب بھی انارکلی کے قریب اسی تنگ گلی میں تھا، لیکن اب وہ گھر خوابوں، شاعری اور محبت کا عظیم مرکز بن چکا تھا۔
عائشہ نے اپنے ناول کی کامیابی کے بعد “دل کی گلیاں” گروپ کو ایک قومی ادبی تحریک میں تبدیل کر دیا۔ وہ پاکستان کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں ادبی ایونٹس منعقد کرتی، جہاں عام لوگوں کی کہانیاں سنی جاتیں اور انہیں عزت دی جاتی۔ اس تحریک نے ہزاروں نوجوانوں کو اپنے خوابوں کی طرف بڑھنے کی ہمت دی۔
عائشہ کی کہانی پاکستانی معاشرے کی عکاسی کرتی ہے، جہاں خواب اور حقیقت، محبت اور جدوجہد، روایت اور جدت ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ اس کی شاعری اور کہانیاں آج بھی لاہور کی گلیوں سے لے کر کراچی کی سڑکوں اور پنجاب کے دیہاتوں تک گونجتی ہیں، اور ہر وہ شخص جو انہیں سنتا ہے، اپنے دل میں ایک نئی امید جاگتی ہوئی پاتا ہے
یہ ایک کہانی ہے، کسی قسم کی مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی۔