ہمارے معاشرے کی ایک تلخ کہانی – یہ لوگ کیا کہیں گے

ہمارا معاشرہ، جہاں محبت، ہمدردی اور انسانیت کی باتیں تو بہت کی جاتی ہیں، لیکن عملی زندگی میں اکثر ایک جملہ ہمارے فیصلوں پر حاوی ہو جاتا ہے: “یہ لوگ کیا کہیں گے؟” یہ جملہ، جو بظاہر معمولی سا لگتا ہے، ہمارے معاشرے کی کئی تلخ کہانیوں کا سبب بنتا ہے۔یہ جو محبت، قربانی، اور جہیز کی سماجی لعنت کے گرد گھومتی ہے۔ واحد پاکستان کے ایک غریب پشتون گاؤں میں رہتا ہے اور اپنی منگیتر گلالئی سے شادی کے لیے پیسے کمانے کے لیے ملک سے باہر جاتا ہے۔ یہ کہانی معاشرتی دباؤ، وقت کے گزرنے، اور زندگی کے تلخ سچ کو بیان کرتی ہے، جو ہمیں سکھاتی ہے کہ محبت کو مادی تقاضوں سے بالاتر ہونا چاہیے۔
پس منظر
واحد پاکستان کے ایک چھوٹے سے پشتون گاؤں کا ایک سادہ سا نوجوان ہے، جو اپنے بوڑھے والدین کے ساتھ ایک جھونپڑی میں رہتا ہے۔ وہ محنت مزدوری کر کے اپنے خاندان کا پیٹ پالتا ہے۔ اس کی منگنی گلالئی سے ہوتی ہے، جو اسی گاؤں کی ایک نیک دل اور خوبصورت لڑکی ہے۔ گلالئی کا خاندان بھی غریب ہے، لیکن جہیز کی روایت ان کے درمیان ایک دیوار بن جاتی ہے۔ گلالئی کے والدین شادی کے لیے جہیز کی لمبی فہرست مانگتے ہیں، جسے پورا کرنا واحد کے بس سے باہر ہے۔
واحد کی پہلی جدوجہد (ملک سے باہر)

واحد گلالئی سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ اسے باعزت طریقے سے اپنی دلہن بنائے گا۔ وہ کہتا ہے:
واحد: “گلالئی، میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارے والدین کے مطالبات پورے کروں گا۔ میں ملک سے باہر جا رہا ہوں، وہاں محنت کروں گا اور پیسے کما کر واپس آؤں گا۔”
گلالئی: “واحد، میرا دل تم پر بھروسہ کرتا ہے، لیکن یہ گاؤں والے اور میرے ماں باپ بہت کچھ کہتے ہیں۔ جلدی واپس آ جانا۔”
واحد دبئی جاتا ہے اور وہاں ایک تعمیراتی کمپنی میں مزدوری شروع کرتا ہے۔ وہ سخت حالات میں کام کرتا ہے، گرمی، لمبے اوقات، اور گھر سے دوری برداشت کرتا ہے۔ پانچ سال کی انتھک محنت کے بعد، وہ کچھ پیسے جمع کر کے گاؤں واپس آتا ہے۔ لیکن گلالئی کے والدین اس سے کہتے ہیں کہ شادی سے پہلے ایک پختہ گھر بنانا ضروری ہے، کیونکہ “ہم اپنی بیٹی کو جھونپڑی میں نہیں بھیج سکتے۔”
گلالئی کا باپ: “واحد، تم نے پیسے تو کما لیے، لیکن ہماری عزت کا سوال ہے۔ ایک پختہ گھر بنا دو، پھر شادی کی بات ہوگی۔”
واحد اپنی ساری کمائی گھر بنانے میں لگا دیتا ہے۔ گھر بنتا ہے، لیکن اس کے پاس شادی کے اخراجات کے لیے کچھ نہیں بچتا۔
دوسری جدوجہد (دوبارہ باہر)

واحد ایک بار پھر گلالئی سے وعدہ کرتا ہے:
واحد: “گلالئی، گھر بن گیا ہے۔ میں دوبارہ باہر جاؤں گا، سونا اور زیورات کا بندوبست کروں گا۔ تم بس انتظار کرو۔”
گلالئی: “واحد، میں تمہارا انتظار کروں گی، لیکن میرے ماں باپ کہتے ہیں کہ زیورات کے بغیر شادی نہیں ہو سکتی۔ براہ کرم جلدی واپس آؤ۔”
واحد اس بار سعودی عرب جاتا ہے اور وہاں ایک فیکٹری میں کام شروع کرتا ہے۔ وہ پانچ سال تک دن رات محنت کرتا ہے، اپنی صحت اور نیند قربان کرتا ہے۔ وہ سونا اور زیورات خرید کر گاؤں واپس آتا ہے، لیکن جب وہ پہنچتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ شادی اور ولیمے کے اخراجات کے لیے اس کے پاس کچھ نہیں بچا۔ گلالئی کے والدین اسے طعنہ دیتے ہیں:
گلالئی کی ماں: “واحد، زیورات تو ٹھیک ہیں، لیکن ولیمہ کیسے ہوگا؟ ہم اپنی بیٹی کی شادی دھوم دھام سے کریں گے، ورنہ لوگ کیا کہیں گے؟”
تیسری جدوجہد اور تلخ حقیقت

واحد ہمت نہیں ہارتا۔ وہ گلالئی سے کہتا ہے:
واحد: “گلالئی، یہ میری آخری کوشش ہے۔ میں دوبارہ باہر جا رہا ہوں، اور اس بار ولیمے کے لیے پیسے کما کر لاؤں گا۔ ہماری محبت کو کوئی نہیں روک سکتا۔”
گلالئی: “واحد، میرا دل تمہارے ساتھ ہے۔ لیکن وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ براہ کرم جلدی واپس آ جانا۔”
واحد اس بار قطر جاتا ہے اور وہاں ایک تیل کی کمپنی میں کام کرتا ہے۔ وہ پانچ سال تک سخت محنت کرتا ہے، لیکن وقت اس کے ہاتھ سے ریت کی طرح نکلتا جاتا ہے۔ جب وہ پانچ سال بعد گاؤں واپس آتا ہے، اس کے بال سفید ہو چکے ہیں۔ وہ ولیمے کے لیے پیسے لے کر آتا ہے، لیکن گاؤں پہنچ کر اسے ایک بڑا صدمہ ملتا ہے۔ گلالئی کے والدین اس دنیا سے جا چکے ہیں، اور گلالئی اکیلی ایک چھوٹے سے گھر میں رہتی ہے۔ اس کے بال بھی سفید ہو چکے ہیں، اور وہ ایک سلائی مشین پر کپڑے سی کر اپنا گذارہ کرتی ہے۔
واحد گلالئی سے ملتا ہے اور کہتا ہے:
واحد: “گلالئی، میں واپس آ گیا ہوں۔ میں نے ولیمے کے لیے پیسے کما لیے ہیں۔ اب ہم شادی کر سکتے ہیں۔”
گلالئی کی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ وہ سر جھکا کر کہتی ہے:
گلالئی: “واحد، اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ ہماری عمریں گزر گئیں، ہمارے بال سفید ہو گئے۔ اب شادی کروں گی تو لوگ کیا کہیں گے؟ ہم نے اپنی پوری زندگی جہیز کی روایت کی بھینٹ چڑھا دی۔”
واحد خاموشی سے اس کی بات سنتا ہے۔ اس کے دل میں ایک طوفان اٹھتا ہے، لیکن وہ کہتا ہے:
واحد: “گلالئی، اگر شادی نہ سہی، تو کیا ہم اپنی باقی زندگی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں گزار سکتے؟ ہم نے محبت کی، یہ ہماری جیت ہے۔”
گلالئی ایک اداس مسکراہٹ کے ساتھ کہتی ہے:
گلالئی: “واحد، ہم نے محبت تو کی، لیکن وقت اور معاشرے نے ہمیں ہرا دیا۔ اب ہم بس ایک دوسرے کے لیے دعا کریں گے۔”
افسوسناک اختتام
کہانی کا اختتام ایک تلخ نوٹ پر ہوتا ہے۔ واحد اور گلالئی شادی کے بندھن میں نہ بندھ سکے۔ جہیز کی لعنت اور معاشرتی دباؤ نے ان کی محبت کو وقت کے ہاتھوں شکست دے دی۔ واحد اپنی باقی زندگی گاؤں میں ایک سادہ سی زندگی گزارتا ہے، جبکہ گلالئی اپنی سلائی مشین کے ساتھ اپنی زندگی کے دن پورے کرتی ہے۔ دونوں کے دل میں ایک دوسرے کے لیے محبت باقی رہتی ہے، لیکن معاشرے کے “لوگ کیا کہیں گے” کے خوف نے ان کی محبت کو ادھورا چھوڑ دیا۔
سبق
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ جہیز جیسی سماجی برائی محبت اور رشتوں کو تباہ کر سکتی ہے۔ واحد کی پندرہ سالہ جدوجہد اور گلالئی کا انتظار اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ معاشرتی روایات کس طرح محبت کو وقت کی بھینٹ چڑھا دیتی ہیں۔ اگر وقت پر جہیز کے مطالبات کو مسترد کر دیا جائے اور شادی کو سادہ بنایا جائے، تو بہت سی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ یہ کہانی ہر اس شخص کے لیے ایک پیغام ہے جو روایات کے نام پر اپنے پیاروں کو کھو دیتا ہے۔ شادی ایک پاکیزہ رشتہ ہے، جسے جہیز کی زنجیروں سے آزاد کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہےکہانی واحد اور گلالئی کی ہے۔
ہمارے معاشرے کی یہ تلخ کہانی تب تک جاری رہے گی جب تک ہم اس جملے کو اپنی زندگیوں سے نہیں نکالیں گے۔ وقت ہے کہ ہم اپنے فیصلے خود کریں، اپنے خوابوں کو اہمیت دیں، اور “لوگوں” کے خوف سے آزاد ہو کر اپنی زندگی جینا سیکھیں۔